تحریر: ملک عمید
پنجاب نے عورتوں پر تشدد کے خلاف جو قانون پاس کیا ہے اس کا ردعمل جن حلقوں کی جانب سے آ رہا ہے اس پر کوئی تعجب نہیں ہوتا، اگر یوں کہیے کہ لگ بھگ تمام مردوں کی جانب سے آ رہا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ قانون گزشتہ چند دنوں سے مسلسل بحث کا مرکز بنا ہوا ہے اور روز شام کو ٹی وی کی عدالتیں لگتی ہیں اور روز اس کے خلاف فیصلے دیے جاتے ہیں۔ ایک ٹی وی اینکر کا تو بس نہیں چلتا کہ کسی طرح اس قانون کے خلاف محاذ کھڑا کیا جائے۔ موصوف پہلے دن تو پینل میں دو عورتوں کو لے آئے اور اس بل کے خلاف قرآن سے دلائل دینے لگے، بُرا ہو جماعت اسلامی کے فرید احمد پراچہ کا جو عام طور پر تو کوئی عقل کی بات نہیں کرتے، مگر اس دن شاید مودودی صاحب کی کوئی کتاب پڑھ کر نہیں آئے تھے اس لیے عقل سے کام لیتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی، نیز بیبیوں نے بھی قرآن پڑھا ہوا تھا سو یہ بات تو چل نہیں سکی۔ اب اس دن کے بعد سے موصوف آدھا درجن مردوں کو بٹھا کر روز اس بل کے خلاف عدالت لگاتے ہیں اور صاف پتا چلتا ہے کہ کسی نے بھی بل نہیں پڑھا ہوا۔ یہی حال دوسرے پروگراموں میں بھی نظر آتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس دن حقوق نسواں بل اسمبلی میں پیش ہوا ایک سو پچھتر مرد ارکان اسمبلی میں موجود نہیں تھے۔ وہ تو بھلا ہو پرویز مشرف کا جس نے اسمبلیوں میں عورتوں کی سیٹیں مختص کر دیں جس سے عورتوں سے متعلق قوانین میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ درست ہے کہ اکثر عورتیں اشرافیہ میں سے ہی آئی ہیں، مگر عورتیں ہوں گی تو عورتوں کے بارے میں سوچیں گی۔ آمر کے کسی بھی کام کی تعریف کرتے ساتھ ہی میں اس کے باقی اقدامات، جن میں اقتدار پر شب خون مارنا شامل ہے، سے بری الذمہ ہونا ضروری سمجھتا ہوں۔
یہ سوچ کہ عورتوں پر ہاتھ اٹھانا مرد کا استحقاق ہے، دراصل اس خیال سے جنم لیتی ہے کہ عورت ناقص العقل ہے اور مرد ذہنی طور پر عورت سے بلند ہے۔ اس سوچ کی نفی کرنا بھی ضروری ہے۔ قوانین خیالات سے نہیں لڑا کرتے بلکہ ان خیالات کے نتائج سے لڑا کرتے ہیں۔ ان قوانین کو جنہوں نے نافذ کرنا ہے وہ چاہے کوئی مرد ہو یا پھر کوئی عورت جب تک وہ مرد کی حاکمیت کے تصور اور اس سے پیدا ہونے والے خیالات سے متاثر ہے، اس قانون کا وہی نتیجہ ہوگا جو منٹو کے افسانے میں نئے قانون کا بنا تھا، ڈھاک کے تین پات۔ اس سوچ کے خلاف ہمیں جنگ کی شروعات ماؤں سے، استادوں سے اور بچوں سے کرنی پڑے گی۔ یہ جنگ اس کے بعد معاشرے کی ہر سطح پر لے جانی ہوگی وہ چاہے سیاستدان ہو، جج ہو، پولیس ہو یا مذہبی جبہ پوش۔
اس بل کے خلاف ملاؤں نے بھی محاذ کھڑا کر لیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن روز کہیں نا کہیں جا کر بیان داغ دیتے ہیں اور ٹانگ یہیں ٹوٹتی ہے کہ ملک کو لبرل نہیں بنانے دیں گے۔ ملاؤں کا مسئلہ صرف اس خواتین پر بنائے گئے قانون کا نہیں ہے بلکہ یہ اس سمت کا مسئلہ ہے جس کی طرف پاکستان چل پڑا ہے۔ آخر ایک بل کے لانے پر نظریہ پاکستان کی بحث کیوں چھیڑی جا رہی ہے، آخر یہ کیا وجہ ہے کہ بڑے بڑے مولوی اس صوبائی قسم کے بل پر برافروخته نظر آتے ہیں، اصل کہانی کچھ اور ہی لگتی ہے۔ وزیراعظم کا ملک کو لبرل جمہوریت بنانے کا بیان، اقلیتوں کے ساتھ دیوالی منانے کا بیان، یہ ضرب عضب اور دیگر کاروائیاں، یہ نیشنل ایکشن پلان اور مذہبی دہشت گردی کی بنیاد بنا کر ترامیم۔ ویسے یہ ایسا متضاد آئین ہے جس میں مذہب کا ہی تڑکہ ہے اور جو راہیں متعین کی گئیں ان کے نتائج یعنی مذہبی انتہا پسندی کی بدولت کی گئی دہشت گردی کا بھی ذکر اسی آئین میں آگیا ہے۔
اور اس سب سے بڑھ کر ممتاز قادری کی پھانسی! ممتاز قادری وہ دکھتی رگ تھی کہ جب بھی حکومت انتہا پسندی کے خلاف اقدامات کا ذکر کرتی تو اہل فکر اس کا ذکر چھیڑ دیتے کہ اگر واقعی آپ سنجیدہ ہیں تو یہ بھی کر کے دکھائیے۔ سو حکومت نے یہ قدم بھی اٹھا لیا اور اپنی طے کردہ سمت کی جانب بڑھنے کی سنجیدگی بھی ظاہر کر دی۔
یہ خیال کہ اس میں سنجیدگی کیسی؟ تو جناب پچھلے ایک سال میں حکومت نے جن تین سو کے لگ بھگ لوگوں کو سولی چڑھایا ہے وہ سب پبلک ڈیمانڈ پر تھا۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے پرانے زمانے میں عوام کے مجمع میں مجرموں یا بادشاہوں کے مغضوبین کو عوام کے شور و غوغا میں سولی چڑھایا جاتا تھا یا کوئی اور دردناک سزا دی جاتی تھی جس سے عوام کو ‘تفریح’ ملتی تھی، مگر ممتاز قادری کی مرتبہ ایسا ہوا کہ عوام کے پرزور احتجاج کے دوران یہ عمل کیا گیا، ایسے کہ پاکستان کی اکثر پبلک کی ڈیمانڈ اس کے برعکس تھی۔ سو یہ کافی سنجیدہ معاملہ ہے اور ان جبہ پوشوں کے لیے تو بالکل جن کے کاروبار پچھلی کئی دہائیوں سے ریاست کی نظریہ مارکہ منڈی کے زیر اثر چل رہے تھے۔
عورتوں کے خلاف قانون کو اسی تناظر میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ سارا غصہ، سارا غم اور ساری فکر عوام الناس کو اس بل کے خلاف بھڑکا کر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آپ دیکھیے کہ یہ سارے عوامل پیٹ کے ہاتھوں مجبور قوم کو جگانے کے لیے کافی نہیں تھے، ہاں اگر یہ کہا جائے کہ اٹھو جاگو تمہارا گھر لٹا جاتا ہے تو شاید یہ وار کارگر ہو جائے۔ اسی لیے پچھلے کی دنوں سے یہ ملّانے اور ٹی وی شوز میں ان کے ہوتے سوتے مسلسل شور و غوغا مچائے بیٹھے ہیں کہ اس سے ہمارا فیملی کا نظام درہم برہم ہو جائے گا، ہائے ہائے کیا اب مرد بھی کڑے پہنیں گے اور ایسے تمام نعرے جو جھوٹی مردانہ غیرت کو جگا سکیں، وہی غیرت جو عورتوں کو غلام بنانے کے لیے کام میں آتی ہے۔ اس ساری بات میں یہ بل کہا جاتا ہے یہ دیکھنے کی بات ہے۔
یہ مضمون اس سے پہلے ہم سب میں شائع ہوا۔