فواد حسن
ابھی شہید امجد صابری کی نمازِ جنازہ بھی ادا نہ کی گئی تھی کہ مختلف ٹی وی چینلز پر یہ سرخیاں گردش کرنے لگیں کہ شریف آباد تھانہ کہ جس کی حدود میں مشہور قوال کا ناحق قتل ہوا اس کے ایس۔ایچ۔او کو معطل کردیا گیا ہے۔ لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں تھی دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ جب بھی کوئی دہشتگردی کا واقعہ شہرِ کراچی میں رونما ہوا ہے تو فی الفور کسی پولیس کے عہدیدار کو نوکری سے فارغ یا برطرف کردیا گیا ہے۔
لیکن مجال ہے جو نزلہ کبھی خاکی وردی والے شہر کے رکھوالوں پہ بھی گرا ہو۔ پچھلے بیس سالوں میں سے رینجرز اس شہر کے ساتھ جو کر رہی ہے وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے جو میں اس تحریر کے ذریعے مزید واضح کرنا چاہتا ہوں۔
کیا یہ بات عجیب و غریب نہیں لگتی کہ رینجرز نے شہرِ کراچی کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا شاید ہی کوئی ایسا یونٹ آفس چھوڑا ہو جہاں پر چھاپہ مار کر دس بارہ بندے دھر لئے ہوں۔ لیکن ذہن پر زور ڈالنے کے باوجود بھی ایسا کوئی واقعہ یاد نہیں آتا جب ریاستی ادارے نے کسی مدرسہ یا مسجد پر چھاپہ مار کر ان تعمیرات پر تالا لگانے کے بعد کالعدم تنظیموں کے کارندے گرفتار کئے ہوں جو آئے دن اہل تشیع، احمدی بھائیوں اور پرامن سول سوسائٹی کے ارکان کو یا تو دھمکیاں دیتے ہیں یہ سیدھا سیدھا موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ یہ بہت معنی خیز بات ہے اور ریاستی ادارے کی ترجیحات کو واضح کرتی ہے۔
پچھلے سال ماہِ رمضان میں میری مرحوم خرم ذکی سے ملاقات ہوئی۔ مختلف امور پر بات کرنے کے بعد جب میں نے ان سے اجازت چاہی تو میرے سامنے ایک گزارش رکھ دی۔ اور وہ یہ کہ: ’یار! پرانی سبزی منڈی پر جو رینجرز کی چوکی واقع ہے وہاں کالعدم سپاہِ صحابہ نے اپنا جھنڈا نصب کیا ہوا ہے۔ کئی بار شکایت کی مگر اسے اتارا نہیں گیا۔ تو کیوں نا ایک احتجاج اسی مقام پر منعقد کیا جائے اور ہاتھ کے ہاتھ اس تکفیری پرچم کو بھی اتارلیا جائے؟‘
میں نے استفسار کیا کہ کیا یہ خطرناک ثابت نا ہوگا؟
تو مرحوم نے سوچ کر جواب دیا ’ہاں! پچھلی بار کچھ لوگوں نے یہ کوشش کی تھی تو ان پر ایک آبادی سے گولیاں برسائی گئی تھیں۔ ‘
میں نے نہایت ادب سے کہا کہ خرم بھائی کیوں جان خطرے میں ڈالتے ہو، جانے دیں آگے اور معرکہ آئیں گے۔
وہ مسکرا دیے اور کہنے لگے کہ جانے تو نہ دیں گے لیکن ابھی صبر کرتے ہیں۔
ہائے افسوس! وہ دہشتناک جھنڈا تو نہ اترا مگر خرم ذکی انہی لوگوں کی نفرت و گولیوں کا نشانہ ضرور بن گئے وہ بھی جب کہ رینجرز کا آپریشن جاری و ساری تھا۔
اب کیا یہ بھی عجیب بات نہیں کہ رینجرز کی چوکی پر ایک کالعدم جماعت کا جھنڈا لہراتا رہا جو احمدی اور شیعوں کو واجب القتل سمجھتی ہے؟
کچھ ماہ سے سلسلہ چلا ہوا ہے کہ جب بھی شہر کی ایک جماعت ہڑتال کی کال دیتی ہے تو رینجرز کا اعلامیہ جاری ہوجاتا ہے کہ شہری ہرگز اس پر کان نا دھریں اور کاروبار کھلا رکھیں، رینجرز کے جوان تحفظ فراہم کریں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پچھلے سال عیدالاضحٰی کے دوران اور اس سے قبل اس جماعت کے اشتہار برائے عطیاتِ چرمِ قربانی اتارے گئے۔ کئی مقامات سے کھالوں بھرے ٹرک بھی چھینے گئے۔
لیکن ان آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ ڈیفنس کے علاقہ میں بھی کالعدم اہلسنت و الجماعت نے نا صرف عطیات جمع کئے بلکہ ببانگِ دہل بل بورڈرز پر اپنے اشتہار بھی آوایزاں کئے۔
یہ عطیات یقیناً آئندہ ’شیعوں اور دیگر مشرکین ‘کا سدِباب کرنے کے کام آئے ہوں گے۔ یہ سب ڈی جی رینجرز کی ناک کے نیچے چلتا رہا۔ مزید تعجب تب ہوا جب بلال اکبر صاحب کے حوالے سے یہ خبر منظرِعام پر آئی کہ آپ12 مئی 2016 کو دارالعلوم کراچی کا دورہ کرنے پہنچ گئے جو کہ ایک عرصہ سے کالعدم جماعتوں کے سربراہان کو معاونت فراہم کرتا رہا ہے۔
چلئے اس بات کو بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ ابھی چند روز قبل کی ہی بات ہے کہ ایک بار پھر کالعدم اہلسنت و الجمات نے ’استحکامِ پاکستان ریلی‘ کراچی کی ایک مشہور شاہراہ پر نکالی۔ مجال ہے کہ رینجرز نے میلی آنکھ سے بھی ادھر کی طرف دیکھا ہو!
اس کے بعد اب تک 20 جون کو سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے اویس شاہ اغوا ہوئے۔ 21 جون کو احمدی ڈاکٹر کو ناحق قتل کیا گیا، اور 22 جون کو عظیم قوال امجد صابری پر گولیاں برسائی گئیں۔
اور عوام کے مقدر میں کیا آیا؟ ایک عدد وہی گھسی پٹی پریس ریلیز جس میں رینجرز نے کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کا اعادہ کیا۔ گویا اب تک صرف زبانی جمع خرچ اور دکھاوا ہورہا تھا جو ممکن ہے آگے بھی چلتا رہے گا۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر رینجرز ایک سیاسی جماعت سے جس قدر بغض رکھتی ہے اس کا عشر عشیر بھی مذہبی انتہاپسند کالعدم گروہوں کے خلاف رکھتی تو کراچی کب کا امن کا گہوارا بن چکا ہوتا۔ مگر خیر شیعہ حضرات، پر امن سنی بریلوی، سول سوسائٹی کے ارکان کا خون کہاں معنی رکھتا ہے۔ جو معنی رکھتا ہے وہ ہیں اس ریاست کے مفادات جو شاید مذہبی جنگجوؤں کے مفادات سے ملے جلے ہیں۔
ابھی اور لاشیں گریں گی۔ اور خون بہے گا مگر ڈی جی رینجرز اسی طرح قائم و دائم رہیں گے۔ کبھی مستعفیٰ نہ ہوں گے، معطل نہ کئے جائیں گے کیونکہ رینجرز پر فی الوقت سب معاف ہے!
______________________________________________
فواد حسن کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔ سماجی و سیاسی مسائل پر نظر رکھتے ہیں۔ پیشہ سے صحافی ہیں اور ایک اخبار میں کام کرتے ہیں۔