تنویر آرائیں
ملک کے معروف اور عالمی شہرت یافتہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن قوال امجد صابری کا قتل پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں بسنے والے ان کے گرویدہ یا چاہنے والے لاکھوں افراد کو سوگوار کر گیا۔ پاکستان کے معاشی مرکز اور اہم ترین شہر کراچی میں کسی اہم شخصیت یا عوام کے دلوں پر راج کرنے والے شخص کو پہلی بار نشانہ نہیں بنایا گیا۔ اس شہر میں اس سے قبل بھی کئی لوگوں کو فرقے، قومیت یا سیاسی وابستگیوں پر موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے اور ہر وہ آواز بند کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے جو آواز اس شہر کے امن اس شہر کی مقبولیت یا اس شہر کے بھلے کے لئے بلند ہوئی۔ ایسی ہر آواز کو دفنانے کی کوشش کی گئی جس نے کراچی کو لاشوں، ظلم و بربریت، جرائم کے گڑھ کے علاوہ اس کی خوبصورتی، معصومیت یا محبت کو اجاگر کرنے اور منفی تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
دنیا میں اس خبر نے جس طرح لوگوں کو چونکا دیا اسی طرح میرے موبائل پر بھی واٹس ایپ پر ملنے والی اس اندہوناک خبر نے مجھے چونکا دیا۔ میرے لئے یہ خبر اس لئے بھی اہم تھی کیوں کے گزشتہ کچھ ہفتوں سے مجھے ذرائع کراچی میں جرائم میں اضافے کی اطلاعات فراہم کر رہے تھے اور کراچی سمیت سندھ کے دیگر علاقوں میں جہادیوں کے سرگرم ہونے کی اطلاعات بھی مل رہی تھیں۔ ان سرگرمیوں اور خطرات کا ذکر میں ایک آرٹیکل میں کر بھی چکا تھا جو اسی دن چھپا تھا اور کئی دوست کہہ رہے تھے کے کراچی میں جاری آپریشن کے بعد اب ایسی سرگرمیاں ممکن نہیں ایسی گفتگو کے کچھ ہی گھنٹوں بعد امجد صابری پر حملے کی اطلاعات کافی لوگوں کے لئے حیران کن نکلی جبکہ ملنے والی اطلاعات درست ثابت ہوئیں۔
ابھی امجد صابری کا ماتم منایا ہی جا رہا تھا کے ایک اور اطلاع نوحہ خواں فرحان علی وارث کی گاڑی پر فائرنگ کی ملی۔ فائرنگ کے دوران وہ گاڑی میں موجود نہیں تھے۔ اس طرح ایک اور جان محفوظ رہی لیکن یہ واضح ہو گیا کہ امجد صابری کے قتل کے بعد بھی وہ لوگ اندر گراؤنڈ ہونے کے بجاۓ شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں۔
امجد صابری کے قتل کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے محسود گروپ نے قبول کی اور وجہ توہین آمیز قوالی بتائی گئی۔ محسود گروپ تحریک طالبان پاکستان سے مئی 2014 میں الگ ہوا تھا لیکن اس کے بعد بھی اس دھڑے کے ٹی ٹی پی سے روابط کی اطلاعات ملتی رہی ہیں۔ جبکے ٹی ٹی پی کا مرکزی ترجمان محمّد خراسانی بھی گروپ کے کمانڈر شہریار محسود سے روابط کی تصدیق کر چکا ہے۔ شہریار محسود ٹی ٹی پی کے امیر حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ایک دن کے لئے ٹی ٹی پی کا نگران امیر رہ چکا ہے اور یہی امارت اس کی وجہ شہرت بنی جبکہ وہ ٹی ٹی پی کے اہم ترین کمانڈر کے طور پر بھی جانا جاتا رہا ہے۔ اس وقت تحریک طالبان پاکستان کے تین اہم دھڑے جماعت الاحرار، گیدڑ گروپ اور محسود گروپ پاکستان میں سب سے زیادہ اہم اور خطرناک کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں اور سرگرم دھڑے تصور کیے جا رہے ہیں۔
امجد صابری کے قتل اور اس سے دو دن قبل چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے کے اغوا نے کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کراچی آپریشن پر کئی سوال اٹھا دیے ہیں۔ امجد صابری کا قتل اس سے قبل انسانی حقوق کے رہنما خرم زکی کا قتل، چیف جسٹس کے بیٹے کے اغوا سمیت دیگر وارداتوں نے یہ واضح کر دیا ہے کے کراچی شہر ابھی تک فرقہ وارانہ کارروائیوں اور جرائم پیشہ افراد یا دہشتگردوں سے محفوظ نہیں۔ جبکہ کراچی شہر کے پر امن ہونے کے تمام دعووں کی حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے اور پر امن بنانے کی رٹ کے نام نہاد “یوٹوپیائی” مینار پاش پاش ہو گئے۔
اگر ہم کراچی آپریشن پر کھل کر تجزیہ کریں اور غیر جانبداری سے دیکھیں تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اس آپریشن کے دوران توجہ کا مرکز سیاسی جماعتیں زیادہ اور جہادی و فرقہ واریت میں ملوث تنظیمیں کم رہی ہیں۔ جو کہ اس آپریشن کی سمت کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ سیاسی لوگوں کے خلاف کارروائیوں نے رینجرز کو متنازعہ بنایا ہے جبکہ جرائم کی رونما ہونے والی کارروائیاں رینجرز کی صلاحیت پر ایک طرف تو سوال اٹھا رہی ہیں تو دوسری طرف اسے مزید متنازعہ بنا رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان پر اٹھنے والی انگلیوں اور ان کے خلاف پائی جانے والی مخالفین کی رائے کو درست ثابت کر رہی ہے۔ شہر میں ہونے والی کارروائیوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کے شہر کے مختلف علاقوں میں ایسی پرتشدد یا جہادی تنظیموں کے کارندوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں جہاں سے نکل کر وہ اپنے اہداف کو با آسانی نشانہ بنا رہے ہیں اور مخالفین کی زبان بندی کا کام زور و شور سے جاری ہے۔ جبکہ کراچی آپریشن کے دوران ایسے عناصر پر توجہ کم دی جا رہی ہے یا انہیں نظر انداز کر کے تمام توجہ سیاسی جماعتوں پر مرکوز کی جا رہی ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص رینجرز کو سیاست کی آڑ میں چھپے ہوئے مبینہ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ساتھ کراچی میں موجود فرقہ واریت پھیلانے یا جہادی تنظیموں سے جڑے ہوئے افراد پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اور ایسے عناصر سے نمٹنے کے لئے واضح اور بلا تفریق حکمت عملی بنانی چاہئے بصورت دیگر ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ ایسے عناصر کی جانب نامکمل توجہ انہیں انتہائی طاقت مہیا کر رہی ہے اور یہ مہلک سے مہلک ہو رہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو وزیرستان کی طرح یہاں بھی امارات کے جھنڈے لہرانے لگے گے۔
______________________________________________
لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہیں ٹویٹر پرفالو کریں tanvirarain@۔