فہد رضوان
مولانا حافظ حمداللہ صاھب صرف کی جانب سے ماروی سرمد صاحبہ کو جس طرح بے ہودگی کا نشانہ بنایا گیا اس سے بہت سے خوش عقیدہ حضرات کی آنکھیں کھل جانی چاہیں . یہ زوال صرف مدارس دینیہ ہی نہیں ، ہمارے جدید تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے افراد کی فکر میں بھی نظر اتا ہے . وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے ، شیریں مزاری صاحبہ کو دیے جانے والے القابات اس حقیقت کی غمازی کرتے ہیں کے بہت کچھ پڑھ ، لکھ کر بھی ہمارے سماج کا مرد ابھی تک قبائلی اور جاگیردارانہ دور کی پدر شاہی غلاظت سے باہر نہیں نکل پایا. یہ سب ان دنوں میں ہو رہا ہے جب تقریبآ ہر اگلے روز ہمارے ملک میں ہماری کوئی نا کوئی بہن ، بیٹی غیرت ، عزت اور ناموس کے گھاٹ اتاری جا رہی ہے . کہیں اسکے نرخرے پر چھری چل رہی ہے تو کہیں اسکو زندہ آگ میں جھلسایا جا رہا ہے تو کہیں تیزاب میں نہلایا جا رہا ہے . مسئلہ شاید بنیادی طور پر یہ ہے کے ہم ابھی تک قبائلی اور جاگیردارانہ عہد کی اخلاقیات اور اقدار سے نہیں نکل پا رہے . اقبال احمد کے بقول ہم اکیسویں صدی میں ساتویں صدی کی روح کے ساتھ داخل ہوئے ہیں . فرانسیسی انقلاب نے یورپ کو جدید دور میں دھکیلا تھا . یہ درست ہے کے وہ ایک خون ریز عمل تھا جس میں شاہی خاندان سمیت لاکھوں افراد (جنکی اکثریت نوابوں ، جاگیرداروں اور پادریوں پر مشتمل تھی ) قتل ہوئے مگر یورپ صدیوں سے مسلط ان رجعتی بیڑیوں سے آزاد ہو گیا جو اسکے پیروں میں ڈلی تھیں . اس انقلاب کے تین نعرے تھے : ‘آزادی، برابری، برادری یعنی بھائی چارہ ‘…. یہ وہ اقدار ہیں جنکی جانب مہذب دنیا پیچھلے تین سو سالوں سے بڑھ رہی ہے . اس میں ظاہری سی بات ہے بہت مرتبہ کھائیاں بھی آئیں ہیں : کولونیل ازم کی کھائی ، فاشزم کی کھائی ، سٹالنسٹ استبداد کی کھائی جن سے انسانیت زخم کھاتے نکل ائی اب نیولبرل سرمایہ دارنہ نظام کی کھائی ہے جو پیچھلی سب کھائیوں سے زیادہ قاتل اور گہری ہے .
سوال یہ ہے کے ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ بدقسمتی سے ہم یورپ سے ہزار سال پیچھے ہیں . یہاں آج بھی عورت ، قانونی لحاظ سے مرد سے آدھی ہے ، اسکی گواہی آدھی ، قتل کر دی جائے تو اسکی دیت آدھی … سماجی لحاظ سے تو عورت کہیں ہے ہی نہیں ، یہ مردوں کا سماج ہے اور ہر وہ عورت جو مرد کی طرح کسی پبلک مقام پر قہقہہ لگائے ، ہر وہ عورت جو مرد کی طرح کسی پبلک مقام پر بیٹھ کر اپنے دوستوں کے ساتھ چائے پیے ، ہر وہ عورت جو مرد کی طرح کسی پبلک مقام پر سگریٹ پیے ، ہر وہ عورت جو مرد کی طرح کسی پبلک مقام پر قہقہہ لگائے ، ہر وہ عورت جو مرد کی طرح کسی پبلک مقام پر اونچی آواز میں بات کرے … وہ بدکردار سمجھی جاتی ہے . اسکا کریکٹر ‘برا’ ہوتا ہے . یہاں آج بھی عورت ، مرد کی جاگیر ، اسکی ذاتی ملکیت ہے جو اپنے ‘ولی’ (ایک فقہی اصلاح یعنی عورت پر اختیار رکھنے والا مرد ) کے تابع ہوتی ہے.. باپ ، بھائی ، شوہر ، بیٹا ..
کیا کہا کے عورت کمزور ہے ؟ صاھب اپ کے سامنے کوئی بندوق تان کر آ جائے تو اپ کتنے ‘ طاقت ور ‘ ہوں گے ؟ یہ قانون ، مضبوط اداروں کا زمانہ ہے . ‘طاقت ‘
اور ‘کمزوری ‘ کا یہ قبائلی تصور انسان کے دور وحشت کی یادگار ہے جب وحشیوں کے جتھے لوٹ ، مار کے لیے دھاوا بولتے اور ‘بہادر سورما ‘ اپنی عورتوں کو ‘مردانہ وار’ لڑتے ہوئے اغوا ہونے سے بچاتے … مہذب دنیا میں عورت ، مرد کی طرح ریاست کی حفاظت میں ہے . وہاں ادارے مضبوط ہیں جو عورتوں کے حقوق کی نگہداشت کرتے ہیں . میں نے خود امارات میں ساحل سمندر پر بکنیاں پہنے لڑکیوں کو نہاتے دیکھا ہے . کسی کی مجال نہیں کے کسی لڑکی کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے . کسی نے ہاتھ بڑھایا نہیں اور وہ ہاتھ توڑنے قانون حرکت میں آ گیا …
مگر یورپ میں ہر دو سیکنڈ بعد ریپ …… سرخ فوج نے جب جرمنی فتح کیا تو ہزاروں عورتوں کو ریپ کیا ….
عزیزم ! اپ ذاکر نائییک صاھب کی کیسٹ سننے کے علاوہ بھی کبھی کچھ خود پڑھ ، لکھ لیا کیجیے . یورپ میں اگر شوہر ، عورت کو اسکی مرضی کے بغیر ہاتھ لگائے تو وہ بھی ‘ریپ ‘ کہلاتا ہے . وہاں جرم پولیس میں رپورٹ ہوتا ہے . اس غیرت کے مارے بدبو دار سماج میں اگر عورت کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو وہ تھانے میں جا کر رپٹ کروائے گی یا سو پردوں میں چھپائے گی ؟
اور رہی سرخ فوج کے سپاہیوں کی زیادتی تو جناب یہ بھی پڑھ لیجیے سٹالن نے انکے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ ایک ایک کو اٹھا کر سائبریا کے لیبر کیمپوں میں پھینکا. ترقی یافتہ دنیا میں بھی انسان بستے ہیں وہاں بھی جرائم ہوتے ہیں مگر وہاں مجرموں کو سزا ملتی ہے …
ہیں ؟ بیوی کو ہاتھ لگانا بھی ریپ ؟ حکم تو یہ ہے کے عورت اگر بخار سے تپ رہی ہو اور شوہر بستر پر بلائے تو اسے چائیے اسکی خواہش پوری کرے ورنہ فرشتے ساری رات اس پر لعنت کرتے ہیں .
یہ ہی تو مسئلہ ہے جناب ! اپ عورت کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں جس کو جس طرح ، جب چاہیں استمعال کریں . جدید فکر اسکو قبول نہیں کرتی . جدید دنیا میں عورت بھی اتنا حق رکھتی ہے جتنا کے مرد . وہ اپنی مرضی سے ہم بستری کرتی ہے . اپنی مرضی سے اپنا جیون ساتھ منتخب کرتی ہے اور اپنی مرضی سے چاھے تو طلاق دے کر رشتہ ختم بھی کرتی ہے اور مرد ہی کی طرح ، اسی لمحے کسی دوسرے سے رشتہ ازواج قائم کرتی ہے …..وہ یورپ میں حکمران بھی بنتی ہے ، ڈرایونگ بھی کرتی ہے ، طیارے بھی اڑاتی ہے ………… اور ..
ہیں ؟ یہ حقوق اعورت کو الله نے نہیں دیے تو ہم کیسے دے سکتے ہیں ؟
اپ کے مذہبی جذبات کا ہم احترام کرتے ہیں مگر یہ سب تو اس دنیا میں ہو رہا ہے . یہ وقت کا پہیہ ہے . اس نے اگے ہی بڑھنا ہے . ہم اور اپ اسے روک نہیں سکتے ..
جو بھی مگر افسوس ہمارے وقت کے علمائے کرام میں وہ پہلے والی بات نہیں رہی …
کیا کہا ؟ قبلہ تاریخ کا مطالعہ کیجیے . یہ علماء پہلے بھی اسی طرح بد مزاج اور کوڑھ مغز تھے . اکبری دور کے دو نہایت ہی ممتاز علماء شیخ عبدالنبی اور مخدوم الملک ملا عبدللہ سلطاں پوری تھے . اکبر تو ایک طرف ، انتہائی باشرع مورخ ، عبدلقادر بدایونی بھی ان دو حضرات کے بے ہودہ اور غیر مہذب برتاؤ پر عاجز آ گیا . آخر اکبر نے تنگ آ کر زبردستی دونوں کو حج بیت اللہ پر مکہ بھیجوا دیا …. یہ کل بھی بے ہودہ تھے ، آج بھی بے ہودہ ہیں۔