انیلا معین سید
ستائیس مارچ 2016 بروز اتوار کو لاہور شہر میں پیش آنے والے واقعے نے میرے بھی ہوش اڑا دیے۔ اس زندہ دل شہر کے باسیوں کو خون میں لت پت دیکھنا ایک بڑا کٹھن مرحلہ تھا۔ یوں تو دہشت گردی اور بم دھماکے ہم پاکستانیوں کی زندگی کا لازم و ملزوم حصہ بن چکے ہیں اور اب ایسے واقعات پر نہ اب نہ ہی دل لرزتا ہے اور نہ ہی آنکھوں میں آنسو آتے ہیں۔ اسے یوں کہنا شاید زیادہ مناسب ہو گا کہ ہماری حسیات سن ہو چکی ہیں۔ مگر جب اس دھماکے کی خبر ملی تو دل میں خیال آیا کہ پارک ہی کیوں؟ پھر دماغ نے جواب دیا کہ کیونکہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تو صرف بچے ‘شہید’ ہوتے ہیں، جبکہ پارکوں میں خواتیں بھی بآسانی ‘شہادت’ کے درجے پر فائز ہو سکتی ہیں۔
یہ بات ذھن میں رہے کہ یہ کوئی عام اتوار نہیں تھا بلکہ اس دن پاکستان میں رہنے والی مسیح برادری ایسٹر کا تہوار منا رہے تھے۔ گلشن اقبال پارک میں تو عام دنوں میں اتنی گہما گہمی ہوتی ہے تو یہ سوچا جا سکتا ہے کہ اس اتوار وہاں کیا منظر ہوگا۔۔ کتنے معصوم چہرے ہوں گے۔ کتنے گھروں کے کفیل ہوں گے اور کتنوں کے جگر کے ٹوٹے ہوں گے۔ہر اس طرح کے واقعے کہ بعد ہمارے حکمران اور میڈیا جانوں کے اس زیاں کو قربانی کا نام دیتے ہیں۔۔ اور اس قسم کے بیاں سامنے آتے ہیں”ہم قوم کی یہ قربانی ضائع نہیں ہونے دیں گے”۔۔ کیا بچے اور عورتیں اسکولوں اور پارکوں میں قربانی دینے جاتے ہیں؟ آپ میں سے کتنے افراد قوم کو ‘ایسی’ قربانی دینے پر راضی ہیں؟
دھماکے کی خبر ملنے کے بعد جوں ہی ٹی وی کھولا تو کئی ایسے جسم بھی دیکھے جن پر زرق برق لباس تھے اور چہرے آرائش سے لبریز تھے مگر ان کی آنکھیں اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہی تھیں اور کئی آنکھیں مسلسل اشک بار تھیں جو اپنے پیاروں کو کھو چکی تھیں۔۔ سجے سجائے چہرے اور وہ ہونٹ جو چند لمحے پہلے مسکراہٹ سے بھرپور تھے اب ان پر آہ و بکا تھی۔۔حملہ آورں کا نشانہ مسیح برادری نہیں بلکہ پاکستان کے تمام شہری تھے بھی کیا عورتیں اور بچے تھے۔۔ ابھی میرے گلے میں آنسوں کا پھندا پھنسا ہوا ہی تھا کہ سوشل میڈیا پر پڑھا کہ پارک میں آئے ایک بچے کا پورا خاندان جاں بحق ہو گیا تھا مگر بچہ بچ گیا اور میں سوچنے لگی کہ وہ زندہ نہیں بچا بلکہ اب وہ ہر روز مرے گا۔۔ ایک خوبصورت لڑکی کی لاش کی تصویر دیکھی۔ موت نے اس کی معصومیت کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔۔ ان آنکھوں میں کتنے خواب ہوں گے۔۔ سرخ جوڑا پہننے کے خواب۔۔ کسی کے ساتھ زندگی بتانے کے خواب۔۔ کسی سے روٹھ کے مان جانے کے خواب۔۔ مگر سانسوں کی ڈور کے ساتھ وہ سب خواب بھی ٹوٹ گئے۔۔ یا اللہ۔۔ اب آنسووں کا پھندا باڑ توڑ چکا تھا۔ بہت سو کی طرح مجھے بھی اس حملہ آور سے نفرت اور کراہیت محسوس ہوئی۔
پھر حکمرانوں کے لتاڑنے پر پولیس کی حرکت میں تیزی آئی اور مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے وہ سر گرم عمل ہو گئے۔ انتھک محنت اور کوشش کے بعد موقع واردات سے مجرم کا شناختی کارڈ برآمد ہوا۔۔
کیا آپ جانتے ہیں وہ حملہ آور کون تھا؟ جی ہاں وہ یوسف نامی ایک شخص مظفر گڑھ کا رہائشی تھا۔ جس کے چہرے پر سب سے مشکوک چیز ‘داڑھی’ تھی اور استفار پر معلوم پڑا کہ وہ مسلمانوں کے بچوں کو آن لائن قران پڑھاتا تھا۔ اس پر شک کی یہ وجوھات کافی تھیں۔۔ تھوڑی اور تحقیق کے بعد یوسف کے ساتھ آنے والے دوست نے بتایا جو حملے میں بچ گیا تھا کہ یوسف ایک معصوم اور عام انسان تھا جو سیر و تفریح کے غرض سے پارک آیا تھا۔۔ اسکا قصور اسکے چہرے کی داڑھی اور اسکا قرآن سے تعلق تھا۔۔
مغربی میڈیا کے مطابق مسلمان ایک دہشت گرد قوم ہے اور بظاہر اس رائے سے ہمارا میڈیا، حکمران اور قانون نافذ کرنے والے ادارے متفق نظر نہیں آتے مگر کیا در حقیقت ایسا ہی ہے یا کہیں انجانے میں ہم بھی تو مغرب کی تقلید تو نہیں کر رہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو کس بنیاد پر معصوم اور بے قصور یوسف پر شک کیا گیا؟ اسکی داڑھی کی بنا پر یا اس کے مسلمان ہونے کی بنا پر؟
وہ بے چارہ تو شاید اس وقت خدا کے سامنے کھڑا اس سے سوال پوچھ رہا ہو گا۔۔کہ۔۔”اے خدا !!! میں تو تیرے پیارے نبی کی سنت کا پیرو کار تھا اور تیری عبادت کرتا تھا پھر تو نے مجھے میری موت کے بعد کیوں رسواء کروایا۔۔؟ پھر مجھے ہی میری ناگہانی موت کا مجرم کیوں ٹہرایا۔۔؟ پھر میری موت کے بعد میرے ہی کنبے کو کیوں مشکلات میں ڈالا۔؟
وہاں کہیں آسمانوں میں اس کے سوال گردش کر رہے ہوں گے اور خدا بے حد محبت اور شفقت سے تمام سوالوں کے جواب دے رہا ہو گا۔
مگر میں یہ سوچ رہی ہوں کہ جب ہم خدا کے سامنے کھڑے ہوں گے اور خدا ہم سے یہ ہی سوال پوچھے گا تو ہم کیا جواب دیں گے؟
کیوں ہم نے ایک معصوم کو رسوءا کیا اور کیوں ایک مقتول کو ہی اس کا قاتل ٹہرایا؟