رفیع عامر
سال تھا 1992 کا اور رات تھی چاند رات سے ایک رات پہلے کی جب لبرٹی مارکٹ لاہور کے تھانے میں دو نوجوانوں کو نشے میں دھت حراست میں لے کر لایا گیا جن پر لبرٹی مارکیٹ میں شاپنگ کرتی خواتین کو ہراساں کرنے کا الزام تھا۔ تھانے کے ایس ایچ او کا نام تھا انسپکٹر دانیال۔ جب انسپکٹر دانیال نے ان دو نوجوانوں سے پوچھ گچھ کی تو انہوں نے بتایا کو وہ دونوں فوج میں کپتان ہیں اور لاہور میں ایک ٹینک بٹالین میں تعینات ہیں۔ دونوں کپتانوں نے انسپکٹر دانیال سے فوری طور پر اپنی رہائی کا مطالبہ کیا لیکن دانیال نے اپنے عملے کو حکم دیا کہ جب تک دونوں کپتان مکمل ہوش میں نہیں آ جاتے، انہیں حراست میں رکھا جائے۔ دونوں کپتانوں کو اگلی صبح رہا کر دیا گیا۔
اس شام دو فوجی ٹرکوں نے پہلے لبرٹی مارکٹ تھانے کا گھیراؤ کیا اور اس کے بعد تھانے میں گھس کر انسپکٹر دانیال کو گھسیٹتے ہوئے باہر لائے اور ایک ٹرک پر سوار کر کے وہاں سے روانہ ہو گئے۔
انسپکٹر دانیال اس شام شدید زخمی اور نیم مردہ حالت میں گلاب دیوی ہسپتال پہنچا دیا گیا۔
جس وقت انسپکٹر دانیال کا ابتدائی علاج کیا جا رہا تھا اس وقت ایس ایس پی لاہور، کینٹ میں موجود ملٹری پولیس کے دفتر میں فوجی حکام سے ملنے پہنچے اور مطالبہ کیا کہ ان دو کپتانوں کو اور ان فوجیوں کو پولیس کے حوالے کیا جائے جنہوں نے تھانے پر حملہ کیا۔ حوالے تو کسی کو کیا کرنا تھا لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ بعد میں داخل کی جانے والی فوجی رپورٹ کے مطابق ایس ایس پی لاہور کے ملٹری پولیس کے دفتر جانے کو لاہور پولیس کی طرف سے ملٹری پولیس کے دفتر پر حملے کی کوشش لکھا گیا۔
اس واقعے کے چند دن بعد چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل آصف نواز لاہور کے دورے پر ائیرپورٹ پہنچے تو آئی جی پنجاب ان سے احتجاج کرنے کے لئے وی آئی پی لاؤنج میں موجود تھے۔ جب آئی جی نے جنرل آصف نواز سے بات کرنے کی کوشش کی تو آصف نواز نے اپنی چھڑی آئی جی کے سینے پر رکھ کر انھیں پرے کر دیا۔ یہ تصویر اگلے دن کے لاہور کے اخبارات میں شائع ہوئی۔
فوج نے اس تمام واقعے کی تحقیق ایک بریگیڈیئر صاحب کے حوالے کی۔ اس رپورٹ میں جہاں یہ لکھا گیا کہ انسپکٹر دانیال تو تھا ہی ایک ناپسندیدہ پولیس افسر وہاں بریگیڈیئر صاحب نے یہ بھی لکھا کہ اگر تھانے پر حملہ کرنے والے ان سے پہلے پوچھ لیتے تو وہ اس حملے کی اجازت نہ دیتے لیکن حملہ آوروں نے جو بھی کیا خوب کیا۔
یہ واقعہ جو میں نے عشروں پہلے بحیثیت ایک نو خیز رپورٹر کور کیا تھا پرسوں صبح سے یاد آ رہا ہے جب سے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کی ٹویٹ دیکھی ہے۔ کچھ سادہ طبع لوگ مجھے یقین دلانے میں لگے رہتے ہیں کہ سول ملٹری تعلقات میں توازن کی صورت حال پہلے سے بہت بہتر ہے اور میں اس سوچ میں ہوں کہ کیا واقعی ایسا ہے؟