تحریر:شان تاثیر
ہمارے ملک میں بہت سے شریف لوگ احمدیوں پر ظلم کی تو مخالفت کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس بات کو جائز خیال کرتے ہیں کہ احمدیوں کے لئے مذہبی شناخت وہ ہو جو اکثریتی گروہ ان پر مسلط کرے۔
میری رائے میں اگر آپ کا موقف یہ ہے کہ احمدی آپ کے نزدیک غیرمسلم تو ضرور ہیں لیکن ان پر ظلم نہیں ہونا چاہیے تو دراصل آپ ان سے زیادتی کی تائید کر رہے ہیں۔ کیونکہ جب آپ دوسرے لوگوں پر اپنی مرضی کی مذہبی شناخت کا لیبل چسپاں کرتے ہیں تو وہیں سے مذہبی آزادی کا اصول مجروح ہو جاتا ہے۔ مذہبی آزادی کا اصول یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنے عقیدے کو اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے، اس سے وابستگی کا اظہار کرنے اور اپنا عقیدہ تبدیل کرنے کا حق حاصل ہے۔ جب ہم انسانی بنیاد پر احمدی ہم وطنوں پر تشدد، ناانصافی اور امتیازی سلوک کی مذمت کرتے ہیں تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ شناخت کا حق ہر انسان کی ذاتی صوابدید کا معاملہ ہے۔ کسی دوسرے کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ دوسروں کے ایمان کا تعین کرے۔ اگر ہم احمدیوں کا یہ حق تسلیم نہیں کرتے تو ظلم کے ایک سرے پر ہم خود بیٹھے ہوتے ہیں اور دوسرے سرے پر حاجی ملک رشید جیسے لوگ ہوتے ہیں جو چکوال حملے کے جلوس میں پیش پیش تھا۔
احمدیوں کا سوال اب پاکستانی شناخت میں مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہےاس لئے ضروری ہے کہ اس معاملے میں آپ اپنی عینک سے دیکھ کر فیصلہ کریں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے اپنے بہن بھائی کبھی تکفیری بربریت کا شکار نہ ہوں اور ان پر کوئی اور گروہ یا فرد جبری مذہبی شناخت کبھی مسلط نہ کر سکے تو آپ کو ان کے بھلے کے لئے آج مثبت اقدام کرنا اور اس پر ڈٹ جانا ہو گا۔
احمدی بھی اسی معیار کی رو سے مسلمان ہیں جس اصول پر کوئی دوسرا گروہ خود کو مسلمان سمجھتا ہے۔۔۔۔ یعنی یہ کہ وہ خود کو مسلمان سمجھتے ہیں۔۔۔ اور جو اس بنیادی سوال سے اختلاف رکھتا ہے اس کو کھوکھلی ہمدردی تیاگ کر حاجی رشید کے ساتھ جا کر کھڑا ہونا چاہئے۔
دستور پاکستان میں احمدیوں سے متعلقہ آئینی ترمیم کی ناانصافی ذہن کو طرح طرح کے سوالوں سے پریشان کرتی ہے۔ جو تلوار صرف احمدیوں پر چلنا تھی، اس کے وار اب شیعہ اور ہزارہ کمیونٹی پر بھی پڑ رہے ہیں۔ یہ چڑیل نام بدل بدل کر وہ ہمارے بچے کھاتی جا رہی ہے اور ہم سمجھے بیٹھے ہیں کہ کوئی بات نہیں۔۔۔ وہ تو احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو یہ حق کس نے دیا تھا کہ وہ ایک سیاسی اور جمہوری فورم پر کسی کے عقیدے کا فیصلہ کرے؟
کل کلاں اگر انڈیا کی پارلیمنٹ ایک متفقہ بل کے ذریعے ہندوستان کے پچیس کروڑ مسلمانوں کو غیر مسلم قرار دے اور پھر ان پر مظالم توڑے اور باقی دنیا سوال اٹھائے تو کیا اسے انڈیا کا داخلی معاملہ قرار دے کر چپ کروا دیا جائے۔۔۔؟
کچھ لوگ احمدیوں کے بارے میں کی گئی آئینی ترمیم کے حق میں یہ استدلال گھڑ لاتے ہیں کہ چونکہ یہ فیصلہ ایک جمہوری حکومت نے منتخب پلیٹ فارم پر کیا تھا اس لئے اب اس کو تسلیم کرنا ہم سب پر ایک آئینی ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ہم احمدیوں کو غیر مسلم تسلیم کر کے جمہوریت پسند شہری ہونے کا ثبوت دیں۔ جمہوری حلقوں کی طرف سے پیش کردہ یہ استدلال اس قدر کمزور ہے کہ اسے آسانی سے رد کیا جا سکتا ہے۔
صرف پچھلی صدی ہی میں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی بمباری سے لے کر فلسطین پر غاصبانہ قبضہ، گوئٹے مالا، ویتنام کمپوچیا اور عراق پر فوج کشی اور بمباری کے علاوہ امریکہ اور نازی جرمنی کے نسلی تعصب پر مبنی قوانین، عقوبت خانے اور انسانیت کے خلاف دیگر گھناؤنے جرائم کا ارتکاب جمہوری حکومتوں ہی کے زیر اہتمام کیا گیا۔ اس لئے جمہوری حکومتوں کے بنائے گئے ظالمانہ قوانین کسی طرح سے بھی تقدیس کی ضمانت نہیں ہیں۔ جمہوریت کا بنیادی اصول تمام حقوق میں انسانوں کی مساوات ہے۔ انسانی حقوق ہمہ گیر بھی ہیں اور آفاقی بھی۔ دنیا بھر کے قوانین کو انسانی حقوق کے معیار ہی پر پرکھا جائے گا ، نہ کہ کسی خطے کی اکثریت کی رائے پر۔ ہر زمانہ اور ہر خطہ انسانی حقوق کے تحفظ کی گواہی بھی دیتا ہے اور تقاضا بھی کرتا ہے۔
انسانی حقوق کسی جمہوری یا غیر جمہوری ادارے کی عطا نہیں بلکہ بنی نوع انسان کا ایک پیدائشی اور دائمی استحقاق ہیں۔ اور ہر وہ قانون جو نا انصافی پر مبنی ہو، اس کا انکار ہر باضمیر انسان کا فرض ہے۔
اس بین الاقوامی انسانی فریضے کی تفصیل روسو، جیفرسن، تھوریو، مارٹن لوتھر کنگ ، گاندھی اور نیلسن منڈیلا ہی نے نہیں کی بلکہ یہ ایک ایسا دائمی اور آفاقی اصول ہے جس کی تلقین ہمارے نبی اکرمؐ نے بھی کی۔
علاوہ ازیں دوسری آئینی ترمیم پاکستان کے آئین میں فراہم کئے گئے مندرجہ ذیل حقوق سے بھی متصادم ہے جن کی ضمانت دستور پاکستان ہر شہری کو دیتا ہے۔
آرٹیکل 17: فکری آزادی کی ضمانت
آرٹیکل 19: آزادی اظہار کی ضمانت
آرٹیکل 20: مذہبی آزادی
آرٹیکل 25 امتیازی سلوک کے خلاف ضمانت
اسی طرح یہ ترمیم آرٹیکل 8 کی رو سے اس لئے بھی ساقط سمجھے جانے کے لائق ٹھہرتی ہے کہ آرٹیکل 8 کے مطابق ” ہر وہ قانون جو اس باب میں بیان کردہ حقوق کو سلب کرے ۔۔۔۔۔ بے حیثیت ہو گا”
اندرایں حالات جمہوریت کے نام پر دوسری آئینی ترمیم نہ صرف نا انصافی پر مبنی ہے بلکہ بجائے خود غیر آئینی بھی ہے۔ اس لئے اس کو رد کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
اس وقت پاکستان میں اہل الرائے افراد کو اس مسئلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے تا کہ پاکستان غیر جانبدار ریاست کے مقام پر فائز ہو سکے۔
دنیا کی سیاسی تاریخ میں جمہوریت نے تو انسان کو استبداد کی چکی سے نکال کر آزادی عطا کی ہے اور آزادی اظہار و عقائد کی ضمانت دی ہے۔ اس غیر آئینی غیر سیاسی اور غیر انسانی ترمیم سے تو پاکستان دنیا میں واحد ملک بن گیا ہے جس نے جمہوریت کے ہتھیار کو استعمال کر کے انسانیت کو بادشاہت اور آمریت کے پنجے سے چھڑوا کر ملائیت کے خونخوار پنجوں میں جکڑ دیا ہے۔ اور یہ شکنجہ اس لئے زیادہ مایوس کن اور خطرناک ہے کہ یہ تو جبر و استبداد کے لئے مذہب سے جواز حاصل کرتا ہے۔ اس طرح کے قوانین کے ذریعے گویا ہم نے آئین سازی کی بندوق بندر کے ہاتھ میں تھمائی ہوئی ہے اور ہم مطمئن ہیں کہ اس سے صرف احمدی یا شیعہ شہریوں کو نقصان پہنچے گا۔
ارے بھائیو۔۔۔ وہ کسی کو بھی مار دے گا۔ خدا کے لئے کوئی ترکیب کر کے بندر کے ہاتھ سے یہ بندوق واپس لو ورنہ آپ کی نسلیں غیر محفوظ ہیں۔
شان تاثیر پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے صاحبزادے ہیں۔ ان سے taseer.shaan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ کالم اس سے پہلے “ہم سب” میں شائع ہوا۔